تعارف
by مجاز لکھنوی

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں
جنس الفت کا طلب گار ہوں میں

عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بے زار ہوں میں

خواب عشرت میں ہیں ارباب خرد
اور اک شاعر بیدار ہوں میں

چھیڑتی ہے جسے مضراب الم
ساز فطرت کا وہی تار ہوں میں

رنگ نظارۂ قدرت مجھ سے
جان رنگینئ کہسار ہوں میں

نشۂ نرگس خوباں مجھ سے
غازۂ عارض و رخسار ہوں میں

عیب جو حافظ و خیام میں تھا
ہاں کچھ اس کا بھی گنہ گار ہوں میں

زندگی کیا ہے گناہ آدم
زندگی ہے تو گنہ گار ہوں میں

رشک صد ہوش ہے مستی میری
ایسی مستی ہے کہ ہشیار ہوں میں

لے کے نکلا ہوں گہر ہائے سخن
ماہ و انجم کا خریدار ہوں میں

دیر و کعبہ میں مرے ہی چرچے
اور رسوا سر بازار ہوں میں

کفر و الحاد سے نفرت ہے مجھے
اور مذہب سے بھی بے زار ہوں میں

اہل دنیا کے لیے ننگ سہی
رونق انجمن یار ہوں میں

عین اس بے سر و سامانی میں
کیا یہ کم ہے کہ گہر بار ہوں میں

میری باتوں میں مسیحائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار ہوں میں

مجھ سے برہم ہے مزاج پیری
مجرم شوخئ گفتار ہوں میں

حور و غلماں کا یہاں ذکر نہیں
نوع انساں کا پرستار ہوں میں

محفل دہر پہ طاری ہے جمود
اور وارفتۂ رفتار ہوں میں

اک لپکتا ہوا شعلہ ہوں میں
ایک چلتی ہوئی تلوار ہوں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse