تعین تسلسل ہے نقش بدن کا
تعین تسلسل ہے نقش بدن کا
اسی سے تعلق ہے یہ جان و تن کا
تصوف تبدل ہے عادات بد کا
تعرف نتیجہ ہے خلق حسن کا
وہی گل شجر ہے وہی بوستاں ہے
وہی آپ ہے باغباں اس چمن کا
وہ بے کیف و م ہے قدیم و ازل سے
اسی سے ہے یہ نقش دہر کہن کا
تولّا سمجھ ہم زبانی سے بہتر
تعشق ہوا ہمدم و ہم سخن کا
رم و شوق کی بھی عجائب کشش ہے
برا حال ہے عاشق خستہ تن کا
جو سر خفی ہے وہ عین جلی ہے
کھلا آج عقدہ یہ سر دہن کا
لطائف میں مضمر ہے تصویر وحدت
یہ خلوت میں پیدا ہے لطف انجمن کا
نظر بر قدم ہے طریق تصور
رم و شوق جادہ ہے سر و علن کا
نہاں سے عیاں ہے عیاں میں نہاں ہے
یہ جادہ ملا ہے سفر در وطن کا
سلوک طریقت ہے آفاق و انفس
کہ جلوہ ہے تنزیہہ میں سیم تن کا
وہ بے پردہ بھی پردہ پوش نظر ہے
حجاب آ گیا ہے ہمیں حسن ظن کا
کبھی شاد و خنداں کبھی زار و نالاں
تماشا ہے ساقیؔ کے دیوانہ پن کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |