تقدیر جب معاون تدبیر ہو گئی
تقدیر جب معاون تدبیر ہو گئی
مٹی پہ کی نگاہ تو اکسیر ہو گئی
دل جاں نثار مے ہے زباں تائب شراب
اس کشمکش میں روح کی تعزیر ہو گئی
چھینٹیں جو خوں کی دامن قاتل میں رہ گئیں
محشر میں میرے قلب کی تفسیر ہو گئی
یا قتل کیجئے مجھے یا بخش دیجیے
اب ہو گئی حضور جو تقصیر ہو گئی
شبنم اوڑھی گلوں سے مرا نقشہ کھنچ گیا
مرجھا گئی کلی مری تصویر ہو گئی
زندانیاں کاکل ہستی کدھر کو جائیں
اک زلف سب کے پاؤں کی زنجیر ہو گئی
میں کہہ چلا تھا داور محشر سے حال دل
اک سرمگیں نگاہ گلو گیر ہو گئی
بس تھم گیا سفیر عمل کہہ کے یا نصیب
جس جا پہ ختم منزل تدبیر ہو گئی
توڑا ہے دم ابھی ابھی بیمار ہجر نے
آئے مگر حضور کو تاخیر ہو گئی
جب اپنے آپ پر ہمیں قابو ملا رواںؔ
آسان راز دہر کی تفسیر ہو گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |