323505تلسی داسجگت موہن لال رواں

یہ عقیدہ ہندوؤں کا ہے نہایت ہی قدیم
جب کبھی مذہب کی حالت ہوتی ہے زار و سقیم
قادر مطلق جو ہے دانائے اسرار و کریم
بھیجتا ہے رہنمائی کے لیے اپنا ندیم
رہبران راہ حق جب رہبری فرماتے ہیں
بھولے بھٹکے سب مسافر راہ پر آ جاتے ہیں

اک زمانہ تھا کہ غارت ہو رہے تھے اہل ہند
اپنا مذہب اپنے ہاتھوں کھو رہے تھے اہل ہند
اک عجب خواب گراں میں سو رہے تھے اہل ہند
اپنے ہی اعمال کو خود رو رہے تھے اہل ہند
غرق ہونے پر تھا جب بیڑا ہماری قوم کا
گوشۂ عزلت میں تلسیؔ ناخدا پیدا ہوا

اپنی نادانی کہیں یا اپنی قسمت کا قصور
دید کے زریں عقائد سے ہوئے جاتے تھے دور
اپنے مذہب کے مسائل سے طبیعت تھی نفور
رہتے تھے ذکر بتان سیم تن کی دھن میں چور
تھا یہاں تک ہم پہ جور‌‌ گردش چرخ بلند
موتیوں کے بدلے ہم کو کنکر آتے تھے پسند

تھے پران و وید و گیتا کے مسائل جس قدر
سلک رامائن میں رکھا تو نے سب کو باندھ کر
جو خزانے تھے پرانے ان سے تھے ہم بے خبر
آنکھیں تھیں لیکن نہ عظمت اپنی آتی تھی نظر
ہو سکے اے ملک کے محسن تری تعریف کیا
تو نے اک کوزے کے اندر بند دریا کر دیا


اک طرف ہنگام شام از بس تھکا ماندہ کساں
دن کی محنت سے فراغت پا کے آیا ہے مکاں
جمع کر کے اپنے گھر کے بچے بوڑھے اور جواں
کہہ رہا ہے ہند کی ہندی میں ہندو داستاں
جو سمجھتے ہیں عجب کیا گر انہیں آتا ہے لطف
لفظ جو سنتا ہے کچھ اس کو بھی آ جاتا ہے لطف

اک طرف عزلت میں ہے نقاد معنی مو شگاف
یہ معانی ہیں موافق وہ مطالب ہیں خلاف
اس سے ہوتا ہے کمال شاعری کا انکشاف
اتنے پیچیدہ مطالب اور پھر بھی اتنے صاف
اہل فن کہتے ہیں اس کو بحر نا پیدا کنار
اور عوام الناس کہہ کے سہل اسے کرتے ہیں پیار

دل دہل جاتا ہے جس بھی وقت کرتے ہیں خیال
تیری رامائن نہ ہوتی گر تو ہوتا کیسا حال
چند دن گر اور چلتا وہ زمانہ اپنی چال
ہم کو کر دیتی ضعیف الاعتقادی پائمال
رائے یہ میری نہیں فتویٰ ہے ساری قوم کا
تیری رامائن نہیں نغمہ ہے ساری قوم کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.