تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے

تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے
by مبارک عظیم آبادی

تماشائی تو ہیں تماشا نہیں ہے
گرا ہے وہ پردہ کہ اٹھتا نہیں ہے

یہ کس کی نظر دے گئی روگ یارب
سنبھالے سے اب دل سنبھلتا نہیں ہے

تڑپ جائیے گا تڑپ جائیے گا
تڑپنا ہمارا تماشا نہیں ہے

بہت پھانس نکلی بہت خار نکلے
مگر دل کا کانٹا نکلتا نہیں ہے

یہ ہر شخص کی لن ترانی ہے کیسی
کہ ہر آنکھ تو چشم موسیٰ نہیں ہے

سلامت مری وحشت دل سلامت
کہاں میری وحشت کا چرچا نہیں ہے

مری جان بھی ہے عنایت تمہاری
یہ دل بھی تمہارا ہے میرا نہیں ہے

بلائی گئی ان کی محفل میں دنیا
مگر ایک میرا بلاوا نہیں ہے

ذرا آپ سمجھایئے دل کو ناصح
میں سمجھا رہا ہوں سمجھتا نہیں ہے

تمہیں دیکھنے کو ترستی ہیں آنکھیں
بہت دن ہوئے تم کو دیکھا نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse