تمام عمر نمک خوار تھے زمیں کے ہم
تمام عمر نمک خوار تھے زمیں کے ہم
وفا سرشت میں تھی ہو رہے یہیں کے ہم
نکل کے روح ڈنواڈول ہو نہ جائے کہیں
ہزار حیف نہ دنیا کے ہیں، نہ دیں کے ہم
نظر اٹھا کے نہ دیکھا کسی طرف تا عمر
رہے خیال میں اک چشم سرمہ گیں کے ہم
زمیں چھڑائی گئی ہم سے جب بنا کر خاک
یہاں پہ کیا نہ رہے اے صبا کہیں کے ہم
یہاں مکاں ہے تو کیوں آسماں کی سیر کریں
مکیں ہیں شادؔ ازل سے اسی زمیں کے ہم
زمانہ شادؔ ہمیں کیوں بھلا نہیں دیتا
نہ ہجو کے نہ سزاوار آفریں کے ہم
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |