تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا

تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
by ثاقب لکھنوی

تمام عمر کی غفلت کے بعد خواب آیا
اٹھا جو پردۂ ہستی مجھے حجاب آیا

اجل نصیب تھا شام وصال خواب آیا
وہ بے حجاب ہوئے تو مجھے حجاب آیا

بلا ہے عہد جوانی سے خوش نہ ہو اے دل
سنبھل کہ عمر کی دنیا میں انقلاب آیا

بڑھائے حوصلے دریا دلی نے ساقی کی
ذرا سے جام میں سو بار آفتاب آیا

کوئی صدا نہیں آتی کہ کون ہے کیا ہے
کہاں بھٹک کے دل خانماں خراب آیا

امید و بیم میں رکھا تمام رات مجھے
کبھی نقاب اٹھائی کبھی حجاب آیا

زمانے والوں کو پہچاننے دیا نہ کبھی
بدل بدل کے لباس اپنے انقلاب آیا

سوائے یاس نہ کچھ گنبد فلک سے ملا
صدا بھی دی تو پلٹ کر وہی جواب آیا

اڑا کے ہوش ہوا ہو گئی تجلی طور
سبھوں سے آنکھ چراتا ہوا حجاب آیا

حریف مے نہیں سمجھا تو کیوں مری جانب
لہو کے گھونٹ پئے ساغر شراب آیا

ہٹے نہ اپنی طبیعت سے حسن و عشق کبھی
ہزار بار زمانے میں انقلاب آیا

سنائیں کیا تمہیں نیرنگ عشق کا قصہ
تمام عمر نہ آنکھیں کھلیں نہ خواب آیا

کھٹک وہ دل میں ہی پیدا جو آج تک نہ ہوئی
سمجھ رہا ہوں کہ طفلی گئی شباب آیا

کفن پنہا دیا ثاقبؔ صنم پرستی نے
خدا کے سامنے جاتے ہوئے حجاب آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse