تمہاری لن ترانی کے کرشمے دیکھے بھالے ہیں
تمہاری لن ترانی کے کرشمے دیکھے بھالے ہیں
چلو اب سامنے آ جاؤ ہم بھی آنکھ والے ہیں
نہ کیونکر رشک دشمن سے خلش ہو خار حسرت کی
یہ وہ کانٹا ہے جس سے پاؤں میں کیا دل میں چھالے ہیں
یہ صدمہ جیتے جی دل سے ہمارے جا نہیں سکتا
انہیں وہ بھولے بیٹھے ہیں جو ان پر مرنے والے ہیں
ہماری زندگی سے تنگ ہوتا ہے عبث کوئی
غم الفت سلامت ہے تو کے دن جینے والے ہیں
امیرؔ و داغؔ تک یہ امتیاز و فرق تھا احسنؔ
کہاں اب لکھنؤ والے کہاں اب دلی والے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |