تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے
تمہارے عشق میں ہم ننگ و نام بھول گئے
جہاں میں کام تھے جتنے تمام بھول گئے
نمازیوں نے تجھ ابرو کو دیکھ مسجد میں
بہ سمت قبلہ سجود و قیام بھول گئے
یہ وضع کیا ہے کہ ہوتے نہیں ہو دست بسر
ابھی سے اپنوں کا لینا سلام بھول گئے
گئے تھے زعم میں اپنے پر اس کو دیکھتے ہی
جو دل نے ہم سے کہے تھے پیام بھول گئے
تری طرف ہوئی صورت گران چیں کی نگاہ
قلم کو ہاتھ سے رکھ اپنا کام بھول گئے
بتان چرب زباں سن کے خوبئ گفتار
ادب میں دب گئے حسن کلام بھول گئے
تری اے سرو رواں دیکھ کر انوکھی چال
جو خوش خرام تھے اپنا خرام بھول گئے
تری یہ زلف گرہ گیر دیکھ کر صیاد
شکار آپ ہوئے صید و دام بھول گئے
بڑا غضب ہے کہ حاتمؔ کو تم نہ پہچانا
وہی قدیم تمہارا غلام بھول گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |