تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
ذرا دیکھیے تو وہ صورت کہاں ہے
بھلا اب کسی سے سنو بات کیا تم
تمہیں اپنی باتوں سے فرصت کہاں ہے
ہر اک بات پر روئے سے دیتے ہو اب
وہ شوخی کہاں وہ شرارت کہاں ہے
پڑے رہتے ہو پہروں ہی منہ لپیٹے
وہ جلسہ کہاں ہے وہ صحبت کہاں ہے
کوئی کچھ کہے اب تمہیں کچھ نہ بولو
وہ تیزی کہاں وہ ظرافت کہاں ہے
وہ لگ چلنا ہر اک سے آفت تمہارا
وہ تندی وہ شوخی وہ فرحت کہاں ہے
کوئی جانتا بھی نہیں اب تو تم کو
وہ پہلی سی خوشبو میں شہرت کہاں ہے
تمہیں دیکھو اور غیر کی باتیں سننا
وہ شان اب کہاں ہے وہ شوکت کہاں ہے
تمہیں ہو عدو ہی کا ملنا مبارک
عدو کی سی ہم میں لیاقت کہاں ہے
نظامؔ آپ ہی آپ آئے گا یاں پر
یہاں رشک سہنے کی طاقت کہاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |