تم اگر دو نہ پیرہن اپنا
تم اگر دو نہ پیرہن اپنا
چرخ سے مانگ لوں کفن اپنا
آگے کرتے تھے اس طرح پامال
یاد تو کیجئے چلن اپنا
آج ہم جان دینے آئے ہیں
کچھ دکھاتے ہو بانکپن اپنا
شانہ زلفوں میں واں نہیں الجھا
سانپ دکھلا رہا ہے پھن اپنا
یاد رکھیو ہماری پامالی
بھولیو مت کبھی چلن اپنا
یا کہو ہم کنویں میں ڈوب مریں
یا دکھاؤ کوچۂ ذقن اپنا
ہم وہ بلبل نہیں جو باغ کو جائیں
کوچۂ یار ہے چمن اپنا
ہم کو دکھلا کے تنگ کرتے ہیں
گہ کمر اپنی گہ دہن اپنا
جس کو کہتے ہیں لوگ شہر کڑا
اے سخیؔ ہے وہی وطن اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |