تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
مجھ پر اک رات کروگے جو کرم کیا ہوگا
ایک عالم نے کیا ہے سفر ملک عدم
ہم بھی جاویں گے اگر سوئے عدم کیا ہوگا
دم رخصت ہے مرا آج مری بالیں پر
تم اگر وقفہ کروگے کوئی دم کیا ہوگا
دیکھ اس چاک گریباں کو تو یہ کہتی ہے صبح
جس کا سینہ ہے یہ کچھ اس کا شکم کیا ہوگا
چین ہو جائے گا دل کو مرے از راہ کرم
میری آنکھوں پہ رکھوگے جو قدم کیا ہوگا
صحبت غیر کا انکار تو کرتے ہو ولے
کھاؤگے تم جو مرے سر کی قسم کیا ہوگا
شانہ اک عمر سے کرتا ہے دو وقتی خدمت
تجھ کو معلوم ہے اے دیدۂ نم کیا ہوگا
مصحفیؔ وصل میں اس کے جو موا جاتا ہو
اس پہ ایام جدائی میں ستم کیا ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |