تم بھی ہو خنجر خوشاب بھی ہے
تم بھی ہو خنجر خوشاب بھی ہے
اور یہ خانماں خراب بھی ہے
وہ بھی ہیں ساغر شراب بھی ہے
چاند کے پاس آفتاب بھی ہے
بولے وہ بوسہ ہائے پیہم پر
ارے کمبخت کچھ حساب بھی ہے
پوچھتے جاتے ہیں یہ ہم سب سے
مجلس وعظ میں شراب بھی ہے
دیکھ آؤ مریض فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے ثواب بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |