تم جو کہتے ہو کہ آویں گے ترے ہاں کل تک
تم جو کہتے ہو کہ آویں گے ترے ہاں کل تک
کون جیتا ہے جدائی میں مری جاں کل تک
تیرے وحشی کا اگر خاک اڑانا ہے یہی
کہیں ڈھونڈا بھی نہ پاوے گا بیاباں کل تک
کچھ بھی کہتے ہیں جراحت کی میرے اے ہمدم
اکتفا کیونکہ کرے ایک نمکداں کل تک
دور سے گر اسے تصویر دکھا دوں تیری
آپ میں آوے نہ پھر شاہد کنعاں کل تک
خاک میں آج وہ سر ٹھوکریں کھاتے ہیں پڑے
جو امارت کا کیا کرتے تھے ساماں کل تک
دل لگاتی ہے عبث اپنے لیے اے بلبل
ڈھونڈے پاوے گی نہ گل ہائے گلستاں کل تک
کیا نظر کام کرے اس کے دہن پر عارفؔ
لاکھ دیکھا کرے یہ دیدۂ حیراں کل تک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |