تم غیر سے ملو نہ ملو میں تو چھوڑ دوں
تم غیر سے ملو نہ ملو میں تو چھوڑ دوں
گر اس وفا پہ کوئی کہے بے وفا مجھے
سچ ہے تو بدگماں ہے سمجھتا ہے کچھ کا کچھ
بوسہ نہ لینا تھا ترے آئینے کا مجھے
انصاف کر خراب نہ پھرتا میں در بدر
ملتی جو تیرے گوشۂ خاطر میں جا مجھے
اس بت کی میں دکھاؤں گا تصویر واعظو
پھر کیا کہے گا داور روز جزا مجھے
کیوں ان سے وقت قتل کیا شکوہ غیر کا
کرنی تھی مغفرت ہی کی اپنی دعا مجھے
پوچھے جو تجھ سے کوئی کہ تسکیںؔ سے کیوں ملا
کہہ دیجو حال دیکھ کے رحم آ گیا مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |