تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
تم نے بیمار محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو کہ دیکھا دیکھا
طفل دل کو مرے کیا جانے لگی کس کی نظر
میں نے کمبخت کو دو دن بھی نہ اچھا دیکھا
لے گیا تھا طرف گور غریباں دل زار
کیا کہیں تم سے جو کچھ واں کا تماشا دیکھا
وہ جو تھے رونق آبادیٔ گلزار جہاں
سر سے پا تک انہیں خاک رہ صحرا دیکھا
کل تلک محفل عشرت میں جو تھے صدر نشیں
قبر میں آج انہیں بیکس و تنہا دیکھا
بسکہ نیرنگی عالم پہ اسے حیرت تھی
آئینہ خاک سکندر کو سراپا دیکھا
سر جمشید کے کاسے میں بھری تھی حسرت
یاس کو معتکف تربت دارا دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |