تم نے دیکھا ہی نہیں ہے وہ نظام مخصوص
تم نے دیکھا ہی نہیں ہے وہ نظام مخصوص
کوئے جاناں میں ہمارا ہے قیام مخصوص
مجتمع آج ہیں یاران سر پل سارے
خلوت خاص میں ہے مجمع عام مخصوص
جلسۂ عام میں دقت نہیں ہوتی ان کو
جو سمجھتے ہیں اشاروں میں کلام مخصوص
دل غم دیدہ ہوا ہمدم صد گونہ نشاط
آج آیا ہے جو دل بر کا پیام مخصوص
وہ مرا صبح نفس مخلص یک رنگ ہوا
اب نہ وہ صبح مقرر ہے نہ شام مخصوص
خوب اعزاز گرفتار محبت کا ہوا
ان کو ہے مد نظر قید دوام مخصوص
عام سے خاص کی تمییز ہوا کرتی ہے
ہو گیا نوک زباں شوخ کو نام مخصوص
نقص یہ وضع کا ہو جائے گا داغ عصمت
کیوں وہ شب گرد ہوا ماہ تمام مخصوص
راز داں جو ہیں سمجھتے ہیں وہ یہ راز و نیاز
گفتگو خاص سے ہوتا ہے کلام مخصوص
ہے ترا بلبل کشمیر یگانہ میکش
عام ہوتا ہی نہیں شرب دوام مخصوص
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |