تم وفا کا عوض جفا سمجھے

تم وفا کا عوض جفا سمجھے
by گویا فقیر محمد
303588تم وفا کا عوض جفا سمجھےگویا فقیر محمد

تم وفا کا عوض جفا سمجھے
اے بتو تم سے بس خدا سمجھے

پان کھا کر جو آئے مقتل میں
کیا شہیدوں کا خون بہا سمجھے

سر قلم کرنے کا تھا خط میں جو حال
اس کا مضمون ہم جدا سمجھے

کب وہ تلووں سے آنکھیں ملنے دے
جو کہ مژگاں کو خار پا سمجھے

ہو گیا جب قلم ہمارا سر
اپنی قسمت کا تب لکھا سمجھے

دوڑے کیا ہو کے خوش سوئے مقتل
اس کے ہم گھر کا راستہ سمجھے

کسی صورت سے ہم کو آنے دے
کاش دروازے کا گدا سمجھے

یاد دنداں میں جو بہا آنسو
اس کو ہم در بے بہا سمجھے

چاندنی پر وہ پھر رکھے نہ قدم
ہم فقیروں کا بوریا سمجھے

تیری ابرو کو جو ہلال کہا
ماہ نو سے بھی کچھ سوا سمجھے

مروں تو وہ جواب نامہ لکھے
خط نہ آنے کا مدعا سمجھے

ہاتھ اٹھا کر لگا جو کوسنے وہ
واہ رے ہم اسے دعا سمجھے

جو ہے بیگانہ آشنا ہے وہ
ہم جو کہتے ہیں کوئی کیا سمجھے

ہم کو نظروں سے پیستی ہیں آپ
چشم بد دور توتیا سمجھے

جب سے اوس کوچے میں قدم رکھا
کیمیا کو بھی خاک پا سمجھے

تجھ کو او نوجواں کہا بے مثل
آج معنی لا فتا سمجھے

ہم نے جب دیکھی چاندنی چھٹکی
تیری اتری ہوئی قبا سمجھے

کاسۂ ماہ جب سے دیکھ لیا
تب سے گردوں کو ہم گدا سمجھے

اپنے فہمید پوچھ مت گویاؔ
کچھ نہ سمجھے یہ بارہا سمجھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.