تم کھل رہے تھے غیر سے چھاؤں تلے کھڑے
تم کھل رہے تھے غیر سے چھاؤں تلے کھڑے
ہم دست رشک دھوپ میں اپنے ملے کھڑے
ہم دیکھ تم کو دوڑے کہ مل لیں گلے کھڑے
تم بھول ہم کو رہ گئے جانی بھلے کھڑے
بیٹھو جی مل کے مہندی دکھاؤ اٹھا نہ ہاتھ
ہاتھوں سے ہم تمہارے بہت ہیں جلے کھڑے
ہے ہر نفس کے ساتھ ہوائی و پھلجھڑی
یہ نخل آہ زور ہیں پھولے پھلے کھڑے
ہے ہم پہ تہمت مرض عشق اظفریؔ
ہم تم ہیں دیکھو ٹھنی سے چنگے بھلے کھڑے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |