تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے

تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے
by رشید لکھنوی

تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے
جو شاخ پھلی ہے وہ بر آورد چمن ہے

گلشن سے عنادل کو قفس میں ہے سوا چین
آرام جہاں ہو وہ غریبوں کا وطن ہے

ہے عالم طفلی سے عیاں موت کا ساماں
غنچے کا جو ملبوس ہے وہ گل کا کفن ہے

ہے حکم کہ مرنے میں نہ اب دیر لگائیں
یہ قید فقط بہر اسیران کہن ہے

اے ضعف یہ چھٹنا ہے مجھے قید سے بد تر
جو تار نفس ہے مری گردن میں رسن ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse