Author:رشید لکھنوی
رشید لکھنوی (1847 - 1918) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- بڑھا یہ شک کہ غیروں کہ تن میں آگ لگی
- ہے اندھیرا تو سمجھتا ہوں شب گیسو ہے
- ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں
- گرم رفتار ہے تیری یہ پتا دیتے ہیں
- مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
- شروع اہل محبت کے امتحان ہوئے
- گردش چشم ہے پیمانے میں
- دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے
- جنوں کی فصل آئی بڑھ گئی توقیر پتھر کی
- مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو
- جس کو عادت وصل کی ہو ہجر سے کیوں کر بنے
- شراب ناب کا قطرہ جو ساغر سے نکل جائے
- ہجر ہے اب تھا یہیں میں زار ہم پہلوئے دوست
- وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا
- آپ دل جا کر جو زخمی ہو تو مژگاں کیا کرے
- جوش وحشت میرے تلووں کو یہ ایذا بھی سہی
- جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے
- اگر گل کی کوئی پتی جھڑی ہے
- ہم اجل کے آنے پر بھی ترا انتظار کرتے
- ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا
- خار و خس پھینکے چمن کے راستے جاری کرے
- دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے
- تنخواہ تبر بہر درختان کہن ہے
- جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
- ہائے شرم دلبری اس دل ربا کے ہاتھ ہے
- ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے
- عقدے الفت کے سب اے رشک قمر کھول دئیے
- نظر کر تیز ہے تقدیر مٹی کی کہ پتھر کی
- راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
- دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا
- باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو
- سرخ ہو جاتا ہے منہ میری نظر کے بوجھ سے
- اگر دلا غم گیسوئے یار بڑھ جاتا
- جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے
- کبھی گیسو نہ بگڑے قاتل کے
- نہ چھوڑا دل خستہ جاں چلتے چلتے
- سلسلۂ جنبان وحشت میں نئی تدبیر سے
رباعی
edit- طفلی نے بے خودی کا آغاز کیا
- پیری میں حواس و ہوش سب کھوتے ہیں
- نامی ہوئے بے نشان ہونے کے لیے
- معلوم تھا تکلیف سوا گزرے گی
- کیوں کنج لحد کے متصل جاؤں گا
- کچھ دل سے جھکے ہوئے کہا کرتے ہیں
- کچھ اہل زمیں حال نیا کہتے ہیں
- کب تک میں رنج و غم کی شدت دیکھوں
- دنیا سے سبھی برے بھلے جائیں گے
- اندوہ شباب ٹالنے کو خم ہوں
- احباب ملاقات کو جو آتے ہیں
- اب اور زمین و آسماں پیدا ہو
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |