توبہ کا پاس رند مے آشام ہو چکا
توبہ کا پاس رند مے آشام ہو چکا
بس ہو چکا تقدس اسلام ہو چکا
شمع حرم تھا گاہ گہے دیر کا چراغ
میں زیب کفر و رونق اسلام ہو چکا
کوٹھے پہ چلئے لطف شب ماہ دیکھیے
سب چاندنی کا فرش لب بام ہو چکا
دیں دار برہمن کہے کافر بتائے شیخ
دونوں طرف سے مورد الزام ہو چکا
اکثر مشاعرے پہ ہوا بزم غم کا شک
کیا کیا مرے کلام پہ کہرام ہو چکا
قرآں اٹھاتے ہیں طمع زر کے واسطے
دیں دار اگر یہی ہیں تو اسلام ہو چکا
کعبے کو جاتے جاتے پھرے سوئے دیر رندؔ
لو حج کر آئے آپ اور احرام ہو چکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |