تو باتوں میں بگڑ جاتا ہے مجھ سے
تو باتوں میں بگڑ جاتا ہے مجھ سے
پرائی پچ پہ لڑ جاتا ہے مجھ سے
یہ کیا کج کاویاں اور ٹیڑھیاں ہیں
کہ تپ تپ کو جھگڑ جاتا ہے مجھ سے
ہمیشہ ماش کا آٹا سا کیوں تو
ذری بھر میں اکڑ جاتا ہے مجھ سے
برا ہے عشق کا آزار یارو
یہ اکثر وقت اڑ جاتا ہے مجھ سے
طبابت میں مسیحا ہوں ولیکن
مرض یہ تو چپڑ جاتا ہے مجھ سے
ہے جانی تجھ میں سب خوبی پہ جاں سا
تو اک دم میں بچھڑ جاتا ہے مجھ سے
ہے دشمن من چلا پر اظفریؔ دیکھ
نظر پڑتے سنکڑ جاتا ہے مجھ سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |