تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے

تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے
by شیخ ظہور الدین حاتم
299192تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہےشیخ ظہور الدین حاتم

تو جو کہتا ہے بولتا کیا ہے
امر ربی ہے روح مولا ہے

جب تلک ہے جدا تو ہے قطرہ
بحر میں مل گیا تو دریا ہے

فی الحقیقت کوئی نہیں مرتا
موت حکمت کا ایک پردا ہے

اور شریعت کی پوچھتا ہے تو یار
وحدہ لا شریک یکتا ہے

ہے گا وہم و قیاس سے باہر
وہ نہ تجھ سا ہے اور نہ مجھ سا ہے

جہاں ہو جو کہو سمیع و بصیر
سب کو دیکھے ہے سب کی سنتا ہے

نظر آتا نہیں وہ اعمیٰ کو
ورنہ اس کا ظہور سب جا ہے

ور طریقت کا تو کرے ہے سوال
سو تو کہتا ہوں گر سمجھتا ہے

غیر حق کے نہ دیکھ غیر طرف
دیدۂ دل جو تیرا بینا ہے

بات سنتا ہے تو اسی کی سن
گر طریقت سے تجھ کو بہرا ہے

اس کے تو ذکر بن نہ کر کچھ ذکر
گر دہاں میں زبان گویا ہے

ہاتھ سے کام بھی اسی کا کر
پاؤں سے چل جو راہ اس کا ہے

کام اس میں بڑا ہے نفس کشی
ہو سکے تو عجب تماشا ہے

معرفت پوچھ کیا ہے عارف سے
جس کو عرفان ہے سو تو گونگا ہے

جس نے پایا اسے سو ہے خاموش
جس نے پایا نہیں سو بکتا ہے

آپ ہی آپ ہے جہاں دیکھو
کل شی محیط پیدا ہے

عشق کا مرتبہ ہے سب سے بلند
سر سے پہلے قدم گزرتا ہے

جو ہوا سر عشق سے آگاہ
آگے مرنے سے آپ مرتا ہے

جو فنا ہو ہوا بقا باللہ
کب اسے زندگی کی پروا ہے

اس کو ہر آن ہر قدم ہر دم
از ثریٰ سیر تا ثریا ہے

رمز توحید کو سمجھ کر بول
گر تو صاحب شعور و دانا ہے

وہ نہ سمجھے گا یہ سخن حاتمؔ
جس کو جہل اور خیال سودا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.