تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
الفت تری اس قدر بہت ہے
اے دل تو نہ کر ہماری خصمی
بس اک دل کینہ ور بہت ہے
ٹک اور بھی صبر کر کہ مجھ کو
لکھنا ابھی نامہ بر بہت ہے
ہم آبلہ بن رہے ہیں ہم کو
اک جنبش نیشتر بہت ہے
شیشے میں ترے شراب ساقی
ٹک ہم کو بھی دے اگر بہت ہے
اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا
دامن ترا خوں میں تر بہت ہے
افسانۂ عشق کس سے کہیے
اس بات میں درد سر بہت ہے
مجھ کو نہیں آہ کا بھروسہ
یعنی کہ یہ بے اثر بہت ہے
اس دل کی تو تو خبر رکھا کر
یہ آپ سے بے خبر بہت ہے
کیا بگڑی ہے آج مصحفیؔ سے
اس کوچے میں شور و شر بہت ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |