تو دیکھ اسے سب جا آنکھوں کے اٹھا پردے
تو دیکھ اسے سب جا آنکھوں کے اٹھا پردے
مانند سویدا کے دل بیچ اسے گھر دے
عالم کے مرقع میں تصویر اسی کی ہے
سب حسن یہاں یارو اس حسن کے ہیں گردے
صیاد کا شرمندہ ہوں بے پر و بالی سے
اڑ کر ابھی جا پہنچوں جو مجھ کو خدا پر دے
ساقی تجھے کم ظرفی مستوں سے نہیں لازم
ترسا نہ مجھے کافر ساغر کے تئیں بھر دے
بزم دل مشتاقاں جوں شام غریباں ہے
یک جلوہ میں تو روشن آ شمع صفت کر دے
ہم عرض کیا اس کی خدمت میں کہ اے صاحب
اتنے ترے بندوں میں ایک ہم بھی ہیں نو وردے
دولت سے تری سب کچھ ہم پاس مہیا ہے
لب خشک و جگر بریاں چشم تر و دل سر دے
حاتمؔ وہ لگا کہنے غصے سے کہ چل جھوٹھے
بندا میں اسے جانوں جو پہلے قدم سر دے
ہشیار کروں حاتمؔ مستوں کو نگاہوں میں
قطرہ مئے وحدت سے جو ساقیٔ کوثر دے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |