تو صبح دم نہ نہا بے حجاب دریا میں
تو صبح دم نہ نہا بے حجاب دریا میں
پڑے گا شور کہ ہے آفتاب دریا میں
چلو شراب پئیں بیٹھ کر کنارے آج
کہ ہووے رشک سے ماہی کباب دریا میں
تمہارے منہ کی صفائی و آب داری دیکھ
بہا ہے شرم سے موتی ہو آب دریا میں
میں اس طرح سے ہوں مہماں سرائے دنیا میں
کہ جس طرح سے ہے کوئی حباب دریا میں
جہاں کے بہر میں ہر موج بوجھ سیل فنا
بنا نہ گھر کو تو خانہ خراب دنیا میں
کبھو جو عالم مستی میں تم نے کی تھی نگاہ
بجائے آب بہے ہے شراب دریا میں
میں آب چشم میں ہوں غرق مجھ کو نیند کہاں
کہیں کسو کو بھی آیا ہے خواب دریا میں
اگر ہے علم جو تجھ کو عمل کے در پے ہو
وگرنہ شیخ ڈبا دے کتاب دریا میں
صنم کی زلف کی لہروں کے رشک سے حاتمؔ
نہیں یہ موج یہ ہے پیچ و تاب دریا میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |