تو عاشقوں کے تئیں جب سے قتل ناز کیا
تو عاشقوں کے تئیں جب سے قتل ناز کیا
خوشی ہیں منت جاں سے تو بے نیاز کیا
کہاں کی عقل کدھر کے حواس کیسا ہوش
خرد کے قصر پہ تو نے تو ترک ناز کیا
ہمارے کلبۂ احزاں میں کر قدم رنجہ
نہال ہم کو تو اے سرو سرفراز کیا
کیا تھا تیغۂ ابرو نے مختصر قصہ
پہ تیری کاکل مشکیں نے پھر دراز کیا
دل اور لاؤں کہاں سے لگے جو اوروں سے
جو ایک دل تھا سو وہ تو تری نیاز کیا
یہ طفل اشک مرا اظفریؔ ہے ناشدنی
جوانا مرگ مری اس نے فاش راز کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |