تو ہی انیس غم رہا نالۂ غمگسار شب

تو ہی انیس غم رہا نالۂ غمگسار شب
by پنڈت جواہر ناتھ ساقی

تو ہی انیس غم رہا نالۂ غمگسار شب
یاس پسند جب ہوا بسمل انتظار شب

رنگ شکست کیوں نہ ہو حال امیدوار شب
تو ہی تو عشوہ گر ہوا باعث انتشار شب

شوق لقائے روئے یار چشم براہ انتظار
آہ سحر سے جا ملا دیدۂ اشکبار شب

درد شکیب سوز ہے کرب وہی ہنوز ہے
دیکھ نہ ہو وہ بے وفا آج کہیں نثار شب

لیل و نہار سازگار اپنے کبھی نہیں ہوئے
دیکھتے کاش اے نگار وعدۂ استوار شب

بہر خدا کبھی تو کر شاد شہید شوق کو
روز سعید ہے وہی یار جو تو ہو یار شب

وقفۂ عمر ایک دم حیف ہے وہ بھی صرف غم
کس کو ہے اعتماد روز کس کو ہے اعتبار شب

دن کو خیال وصل کا رات کو درد ہجر ہے
شغل وہ روز کا ہوا اور یہ کاروبار شب

یہ شب ماہتاب ہے صاف ہمیں جواب ہے
ماہ لقا ہیں منتظر مل کے دکھا بہار شب

حسرت اشتیاق نے آج کیا شہید ہجر
میرے دل نگار کا دیکھ تو لے مزار شب

باب قبول مدعا داعیٔ خیر ہے ترا
ہو دل شب میں نالہ کش اے دل بے قرار شب

اب نہیں وقف انتظار رات کو مل گیا نگار
میرا کریم کار ساز ہو گیا پردہ دار شب

دم کش عیش و خرمی تھا یہ فراق سینہ سوز
دور نشاط ہو گیا شکر ہے ہمکنار شب

بعد فراق رنگ وصل ہوتا ہے عین انبساط
میرا وہ راحت رواں دل سے ہوا دو چار شب

اس کا شعار کیوں نہ ہو پاس حجاب عاشقاں
شب ہے ہماری راز داں ہم جو ہیں راز دار شب

چھپ نہ سکا حجاب میں عشوۂ حسن خود نما
آیا جو ماہ اوڑھ کر چادر زرنگار شب

جام شراب شوق کا دیتا ہے شوخ ماہرو
مست سرور کیوں نہ ہوں ساقیؔ مے گسار شب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse