تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے
تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے
میں ہوں اور رنج ہے اور گوشۂ تنہائی ہے
سچ کہا ہے کہ بہ امید ہے دنیا قائم
دل حسرت زدہ بھی تیرا تمنائی ہے
دل کی فریاد جو سنتا ہوں تو رو دیتا ہوں
چوٹ کمبخت نے کچھ ایسی ہی تو کھائی ہے
بے نیازی کی ادائیں وہ دکھاتے ہیں بہت
خوئے تسلیم مری ان کو پسند آئی ہے
زلف برہم مژہ برگشتہ جبیں چین آلود
میری بگڑی ہوئی تقدیر کی بن آئی ہے
ادب آموز بلا کا ہے تغافل ان کا
شوق پر حوصلہ نے خوب سزا پائی ہے
کہے دیتا ہوں کسی اور کی جانب تو نہ دیکھ
کیا یہ کچھ کم ہے کہ وحشتؔ ترا سودائی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |