تھا پاس ابھی کدھر گیا دل
تھا پاس ابھی کدھر گیا دل
یہ خانہ خراب گھر گیا دل
خوار ایسا ہوا بتاں کے پیچھے
نظروں سے مری اتر گیا دل
شبنم کی مثال روتے روتے
اس باغ سے چشم تر گیا دل
جوں خضر رہا ہمیشہ تنہا
ایسے جینے سے بھر گیا دل
کیا پوچھتے ہو خبر تم اس کی
یک عمر ہوئی کہ مر گیا دل
مرتے مرتے بھی یہ جواں مرگ
سوراخ جگر میں کر گیا دل
تھا دشمن جاں بغل میں حاتمؔ
جانے دے بلا سے گر گیا دل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |