تھی آسماں پہ میری چڑھائی تمام رات
تھی آسماں پہ میری چڑھائی تمام رات
پھینکا کیا ہوں تیر ہوائی تمام رات
وہ مے پرست ہوں کہ نہ پائی اگر شراب
کی خون دل سے کار روائی تمام رات
ہم خانۂ عدو ہے مبارک رہے اسے
جھگڑا تمام روز لڑائی تمام رات
کیا خوش رہا میں دوست کی تصویر جان کر
تھی کل جو مہ کی جلوہ نمائی تمام رات
بکھری رہی ہے شب مرے بازو پہ زلف یار
کرتا رہا ہوں غالیہ سائی تمام رات
بڑھتا رہا بدن میں مرے دم بہ دم لہو
سینے پہ تھا وہ دست حنائی تمام رات
تھا میرے حوصلے سے زیادہ غم فراق
اک داستان اس کو سنائی تمام رات
شرم ستم نے وصل میں کیسا ستم کیا
شکل اس نے کل مجھے نہ دکھائی تمام رات
سچے ہیں اپنے وعدے کے آتے وہ خواب میں
ناظمؔ مجھی کو نیند نہ آئی تمام رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |