تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھے

تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھے
by رند لکھنوی
316660تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھےرند لکھنوی

تہمت حسرت پرواز نہ مجھ پر باندھے
وجہ کیا کھول کے صیاد نے پھر پر باندھے

باغباں گھات میں صیاد ہمیشہ موجود
آشیاں باغ میں بلبل کہو کیوں کر باندھے

جو چھری دیکھ کے قصاب کی تھراتے تھے
شان حق ہے وہی اب پھرتے ہیں خنجر باندھے

کل کیا تھا جو مرے چاک گریباں میں رفو
اس خطا پر گئے ہیں آج رفو گر باندھے

ہو چکا تھا جو مرے تیز پری سے آگاہ
چست کر کے مرے صیاد نے شہ پر باندھے

شعرا کھائیں گے کیا کیا نہ ابھی تو دھوکے
سرو باندھے کوئی اس قد کو صنوبر باندھے

معجزہ لب ترا گویا کرے اے رشک کلیم
جو زباں سحر سے یہ چشم فسوں گر باندھے

مطمئن بیٹھ تو صیاد نہ کر قید شدید
ہوں میں پابند محبت ترا بے پر باندھے

باغ عالم میں اسی کے لیے ہے نشو و نما
صورت غنچہ رہے گانٹھ میں جو زر باندھے

بوسہ مانگا جو شب وصل تو بولا ہنس کر
کہیں ایسا نہ ہو ہر روز کی تو کر باندھے

دل کی بیتابی سے ٹانکے مرے سب ٹوٹ گئے
پٹی جراح کہو زخم پہ کیوں کر باندھے

لے تو جائے گا خط شوق مگر رشک یہ ہے
آشیاں بام پر اس کے نہ کبوتر باندھے

امتی کیا کریں الجوع نہ چلائیں اگر
بھوک میں جبکہ نبی پیٹ پہ پتھر باندھے

افترا کرنے میں طوفان ہے وہ شوخ ظریف
توتیا تازہ کوئی اور نہ مجھ پر باندھے

مجھ سا محرم ترے محرم کا نہ ہوگا کوئی
بیشتر کھول دیے بند اور اکثر باندھے

دست صنعت سے بنے اس کے اگر تجھ سا بت
کیوں ہوا اپنی خدائی کی نہ آذر باندھے

شاعری کے لئے لازم ہے تلازم نہ چھٹے
لعل لب کو ترے تو دانتوں کو گوہر باندھے

پائے رفتار اگر ہوتے تو چلتا پھرتا
رندؔ مردا سا پڑا رہتا نہ یوں سر باندھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.