تیرا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا

تیرا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا
by فانی بدایونی
299771تیرا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھافانی بدایونی

تیرا نگاہ شوق کوئی راز داں نہ تھا
آنکھوں کو ورنہ جلوۂ جاناں کہاں نہ تھا

عالم جز اعتبار نہاں و عیاں نہ تھا
یعنی کہ تو عیاں نہ ہوا اور نہاں نہ تھا

اب تک تری گلی میں یہ رسوائیاں نہ تھیں
اب تک تو اس زمیں پہ کوئی آسماں نہ تھا

کیا دن تھے جب مآل وفا کی خبر نہ تھی
وہ دن بھی تھے کہ حال وفا داستاں نہ تھا

تلقین صبر دل سے تو کوئی دشمنی نہ تھی
دیکھا یہ حال قابل شرح و بیاں نہ تھا

مفہوم کائنات تمہارے سوا نہیں
تم چھپ گئے نظر سے تو سارا جہاں نہ تھا

ہر شاخ ہر شجر سے نہ تھا بجلیوں کو لاگ
ہر شاخ ہر شجر پہ مرا آشیاں نہ تھا

آغوش موت میں تہ دامان یار ہوں
وہ دن گئے کہ مجھ پہ کوئی مہرباں نہ تھا

آزردہ تھا کہ ضبط فغاں میں اثر نہیں
شرمندہ ہوں کہ ضبط فغاں رائیگاں نہ تھا

ہو بھی چکے تھے دام محبت میں ہم اسیر
عالم ابھی بقید زمان و مکاں نہ تھا

اللہ رے بے نیازئ آداب التفات
دیکھا مجھے تو پائے نظر درمیاں نہ تھا

میرے دل غیور کا حسن طلب تو دیکھ
گویا زباں پہ حرف تمنا گراں نہ تھا

تو نے کرم کیا تو بہ عنوان رنج زیست
غم بھی مجھے دیا تو غم جاوداں نہ تھا

فانیؔ فسون موت کی تاثیر دیکھنا
ٹھہرا وہ دل کہ جس پہ سکوں کا گماں نہ تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse