تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا

تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا
by ثاقب لکھنوی

تیرگی نام ہے دل والوں کے اٹھ جانے کا
جس کو شب کہتے ہیں مقتل ہے وہ پروانے کا

چل بیاباں کی طرف جی نہیں گھبرانے کا
روح مجنوں سے گھر آباد ہے ویرانے کا

دیدۂ دوست تری چشم نمائی کی قسم
میں تو سمجھا تھا کہ در کھل گیا میخانے کا

دم آخر کی ملاقات میں کیا تم سے کہوں
وقت ہی تنگ بہت ہجر کے افسانے کا

دامن شمع پہ دھبا نہ رہا واہ رے عشق
خون اب تک نظر آیا نہیں پروانے کا

تنگ ہے صحن جہاں ساتھ نہ لے بار عمل
راستہ ملتا ہے مشکل سے گزر جانے کا

گل و آہو چمن‌ و دشت میں کہہ جاتے ہیں کچھ
کہیں موقع نہیں اے دل ترے بہلانے کا

روکے جاتے ہیں رہ‌ دوست کے چلنے والے
وہی دشمن ہے جو ہمدرد ہے دیوانے کا

قبر والے موے ممنون زیارت لیکن
نام بدنام کیا آپ نے ویرانے کا

ہجر نے کون سا پیوند لگا رکھا تھا
راستہ مل گیا خنجر کو گزر جانے کا

تو شب غم کو نہ سمجھا ہو تو میں سمجھا دوں
وہی میدان شہادت ترے پروانے کا

قصۂ باغ ہے اور میری مسرت کی امید
ڈھنگ آتا نہیں صیاد کو بہلانے کا

بزم رنگیں میں تری ذکر غم آیا تو سہی
خوش رہے چھیڑنے والا مرے افسانے کا

آشیاں آبلۂ باغ ہے اے سوختہ دل
اک نشاں چھوڑ چلا ہوں ترے جل جانے کا

عبرت عقل ہے وارفتگی اہل مذاق
ہوش والوں میں ہے چرچا ترے دیوانے کا

حسب فرمائش گردش ہیں غریبوں کے مزار
آسماں دوست ہے منظر مرے ویرانے کا

حصۂ بخت کا مانع ہے یہی دور فلک
بڑھ گیا گھوم کے رستہ مرے پیمانے کا

ہو گیا غرق سر شعلۂ شمع محفل
خون اونچا ہوا اتنا کسی پروانے کا

نزع کے وقت جو کہتا ہوں وہ سمجھے کہ نہیں
باب اول تو یہیں ختم ہے افسانے کا

لے پریشانئ دل اب ہے تری عمر دراز
وقت کھنچنے لگا زلفوں کے سنور جانے کا

چوٹ کھانے سے دبی آگ ابھر آئی ہے
رنگ بدلا ہے مرے دل نے صنم خانے کا

داغ دل قبر کی ظلمت میں ہے بے نور ایسا
جیسے دیکھا ہو چراغ آپ نے ویرانے کا

حسن اور عشق کے نیرنگ خدا ہی جانے
شمع جلتی ہے کہ دل جلتا ہے پروانے کا

دیکھ خون سر فرہاد کا رنگیں پتھر
یہ نگینہ ہے بنایا ہوا دیوانے کا

نزع اک عید ہے روتے ہوئے وہ آئے ہیں
اے دل زار یہی وقت ہے مر جانے کا

اہل دل جاگتے سوتے میں سنا کرتے ہیں
وقت کوئی نہیں ثاقبؔ مرے افسانے کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse