تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
آرزو گر ہے تمنا ساز ہے
پھر حدیث عشق کا آغاز ہے
آج پھر گویا زبان راز ہے
گنج اسرار ازل ہے باغ دہر
پتا پتا دفتر صد راز ہے
جان دے دی ان پہ اور زندہ رہے
اپنے مرنے کا نیا انداز ہے
ہوشیار اے ناوک افگن ہوشیار
طائر جاں مائل پرواز ہے
رخصت اے عقل و خرد ہوش و حواس
شوق وصل یار کا آغاز ہے
میرے نالے سن کے فرماتے ہیں وہ
یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے
جس کو سب سمجھے ہیں دشت کربلا
وہ تو میدان نیاز و ناز ہے
ذرے ذرے میں عیاں ہونے کے بعد
آج تک راز حقیقت راز ہے
آپ جانچیں مجمع عشاق میں
ان میں بیدمؔ سا کوئی جاں باز ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |