تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے

تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
by شوق قدوائی

تیری سی بھی آفت کوئی اے سوزش تب ہے
اک آگ ہے سو اتنی جلن آگ میں کب ہے

مانا کہ تم امید وفا کے نہیں قائل
پھر کیا مرے جینے کا کوئی اور سبب ہے

خوش ہوں ترے کینے سے کہ شرکت سے ہوں محفوظ
جتنا ترے دل میں ہے وہ میرے لئے سب ہے

حاجت نہیں کچھ اور پس مرگ مگر ایک
یعنی مجھے درکار تری جنبش لب ہے

زندہ رہوں کیوں میں کہ زباں ان سے ہو گستاخ
مرنے میں خموشی ہے خموشی میں ادب ہے

ہو ہجر تو پھر گور میں اور گھر میں ہے کیا فرق
جو گور کی ظلمت ہے وہی ہجر کی شب ہے

اظہار وفا ہے تو کس امید پہ اے شوقؔ
تو داد طلب اس سے کہ بیداد طلب ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse