تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
تیری گلی میں میں نہ چلوں اور صبا چلے
یوں ہی خدا جو چاہے تو بندے کی کیا چلے
کس کی یہ موج حسن ہوئی جلوہ گر کہ یوں
دریا میں جو حباب تھے آنکھیں چھپا چلے
ہم بھی جرس کی طرح تو اس قافلے کے ساتھ
نالے جو کچھ بساط میں تھے سو سنا چلے
کہہ بیٹھیو نہ دردؔ کہ اہل وفا ہوں میں
اس بے وفا کے آگے جو ذکر وفا چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |