تیرے در پر مقام رکھتے ہیں
تیرے در پر مقام رکھتے ہیں
قصد دار السلام رکھتے ہیں
ابتدا اپنی انتہا سے پرے
ناتمامی تمام رکھتے ہیں
آسماں سے کسے امید نجات
آشیاں زیر دام رکھتے ہیں
ایک یوسف کہ ساتھ غربت میں
ایسے لاکھوں غلام رکھتے ہیں
بے بہا شے ہوں میں کہ وہ مجھ کو
ناخریدہ غلام رکھتے ہیں
سب کی سنتے ہیں کرتے ہیں جی کی
کام سے اپنے کام رکھتے ہیں
وصل معشوق ہے سلیمانی
وہ ہی جم ہیں جو جام رکھتے ہیں
کچھ تری دوستی کی قدر نہیں
دشمنی خاص و عام رکھتے ہیں
قیس و فرہاد کہتے ہیں وہ مجھے
کیسے گن گن کے نام رکھتے ہیں
نالوں کو روک روک لیتے ہیں
دل کو ہم تھام تھام رکھتے ہیں
کعبے میں ایک دم کی مہمانی
مے کدے میں مدام رکھتے ہیں
دل ربا کہنے سے وہ چونک اٹھے
گویا ہم اتہام رکھتے ہیں
چشم بد دور عیش عہد شباب
صبح ہم رنگ شام رکھتے ہیں
اے قلقؔ بیٹھیے سر خم مے
آپ عالی مقام رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |