تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا

تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
by وحشت کلکتوی

تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
ترکیب دل نے درد کو درماں بنا دیا

صد شکر آج ہو گئی تکمیل عشق کی
اپنے کو خاک کوچۂ جاناں بنا دیا

کوتاہی کوئی دست جنوں سے نہیں ہوئی
دامن کو ہم کنار گریباں بنا دیا

چھوڑی ہے جب سے میں نے سلامت روی کی چال
دشواریوں کو راہ کی آساں بنا دیا

اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں
تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا

حسن آفریں ہوا ہے تصور جمال کا
دل کو ہوائے گل نے گلستاں بنا دیا

زہد اور اتقا پہ مجھے اپنے ناز تھا
خود میں نے تجھ کو دشمن ایماں بنا دیا

آئینۂ جمال کو دیکھوں گا کس طرح
اس نے تو پہلے ہی مجھے حیراں بنا دیا

وہ امتیاز حسن ہے معنی و لفظ کا
وحشتؔ کو جس نے غالبؔ دوراں بنا دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse