تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
تیز مجھ پر جو ستم گر کی چھری ہوتی ہے
کیجیے کیا کہ لگی دل کی بری ہوتی ہے
منع کرتا ہے تڑپنے سے قفس میں صیاد
نالے کرتا ہوں تو گردن پہ چھری ہوتی ہے
ہر بدی کرتی ہے انسان کو دنیا میں ہلاک
سم قاتل ہے وہ عادت جو بری ہوتی ہے
اہل دل عشق میں دم مار سکیں کیا ممکن
رگ جاں کے لئے ہر سانس چھری ہوتی ہے
بیٹھ کیوں بادہ کشوں میں کہ ہوں گم ہوش و حواس
صحبت اہل خرابات بری ہوتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |