تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
دیکھیں کس کس کی جان پر آئی
ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی
ٹک شکایت کی اب اجازت ہو
نہیں رکتی زبان پر آئی
پوچھیے حال زار یہ نہ کبھو
دل نامہربان پر آئی
دل ہمارا کہ گھر یہ تیرا تھا
کیوں شکست اس مکان پر آئی
کٹ گئی دودمان تاک کی ناک
دخت رز جب دکان پر آئی
ٹک تو ظالم سنبھال خنجر کیں
کارد اب استخوان پر آئی
عالم جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہان پر آئی
غیر کے آگے دل کی بات بیاںؔ
آہ میری زبان پر آئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |