جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق

جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق (1914)
by پروین ام مشتاق
308330جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق1914پروین ام مشتاق

جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق
قابل تعریف ہے تیرے فدائی کا عشق

کیسی مصیبت ہے یہ گل کو خموشی کا شوق
بلبل بیتاب کو ہرزہ سرائی کا عشق

پڑ گئی بکنے کی لت ورنہ یہاں تک نہ تھا
واعظ نافہم کو ہرزہ سرائی کا عشق

کرتا ہوں جو بار بار بوسۂ رخ کا سوال
حسن کے صدقے سے ہے مجھ کو گدائی کا عشق

تم کو خدا نے دیا ساری خدائی کا حسن
مجھ کو عطا کر دیا ساری خدائی کا عشق

عاشق و معشوق کی ہائے نبھے کس طرح
ان کو کدورت کا شوق مجھ کو صفائی کا عشق

پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر
شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D8%AA%D8%A7_%D8%B1%DB%81%D8%A7_%D9%82%D9%84%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D8%B3%D8%A7%D8%B1%DB%8C_%D8%AE%D8%AF%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%DA%A9%D8%A7_%D8%B9%D8%B4%D9%82