Author:پروین ام مشتاق
پروین ام مشتاق (1866 - ?) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
editدیوان پروین (1914)
edit- محفل میں غیر ہی کو نہ ہر بار دیکھنا
- کسی کی کسی کو محبت نہیں ہے
- بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کل
- بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں
- جو چار آدمیوں میں گناہ کرتے ہیں
- پہلو و پشت و سینہ و رخسار آئنہ
- اب کوئی ترا مثل نہیں ناز و ادا میں
- بہت ہی صاف و شفاف آ گیا تقدیر سے کاغذ
- نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا
- کچھ طبیعت آج کل پاتا ہوں گھبرائی ہوئی
- نیک و بد کی جسے خبر ہی نہیں
- دل کی چوری میں جو چشم سرمہ سا پکڑی گئی
- میری عزت بڑھ گئی اک پان میں
- نکالی جائے کس ترکیب سے تقریر کی صورت
- جو دل مرا نہیں مجھے اس دل سے کیا غرض
- ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع
- متکبر نہ ہو زردار بڑی مشکل ہے
- نئے غمزے نئے انداز نظر آتے ہیں
- غریب آدمی کو ٹھاٹ پادشاہی کا
- بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں
- کریں گے ظلم دنیا پر یہ بت اور آسماں کب تک
- خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
- ہجر میں غم کی چڑھائی ہے الٰہی توبہ
- دل میں تیر عشق ہے اور فرق پر شمشیر عشق
- جس طرح دو جہاں میں خدا کا نہیں شریک
- جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق
- وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں
- مجھ کو کیا فائدہ گر کوئی رہا میرے بعد
- ہزار شرم کرو وصل میں ہزار لحاظ
- بہت دن درس الفت میں کٹے ہیں
- کھلایا پرتو رخسار نے کیا گل سمندر میں
- زباں ہے بے خبر اور بے زباں دل
- پھیلا ہوا ہے باغ میں ہر سمت نور صبح
- پوشاک نہ تو پہنیو اے سرو رواں سرخ
- دیکھو تو ذرا غضب خدا کا
- میں چپ کم رہا اور رویا زیادہ
- نرگسیں آنکھ بھی ہے ابروئے خم دار کے پاس
- مجھ کو دنیا کی تمنا ہے نہ دیں کا لالچ
- دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں
- خدا کے فضل سے ہم حق پہ ہیں باطل سے کیا نسبت
- میں چپ رہوں تو گویا رنج و غم نہاں ہوں
- میرے لیے ہزار کرے اہتمام حرص