جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
جان اس کی اداؤں پر نکلتی ہی رہے گی
یہ چھیڑ جو چلتی ہے سو چلتی ہی رہے گی
ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا
اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی
دل رشک عدو سے ہے سپند سر آتش
یہ شمع تری بزم میں جلتی ہی رہے گی
غمزہ ترا دھوکا یوں ہی دیتا ہی رہے گا
تلوار ترے کوچے میں چلتی ہی رہے گی
اک آن میں وہ کچھ ہیں تو اک آن میں کچھ ہیں
کروٹ مری تقدیر بدلتی ہی رہے گی
انداز میں شوخی میں شرارت میں حیا میں
واں ایک نہ اک بات نکلتی ہی رہے گی
وحشتؔ کو رہا انس جو یوں فن سخن سے
یہ شاخ ہنر پھولتی پھلتی ہی رہے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |