جان نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
جان نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
جنت ہے ایک خون تمنا کہیں جسے
اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
ایسا حجاب چشم تماشا کہیں جسے
یہ اصل زندگی ہے یہ جان حیات ہے
حسن مذاق شورش سودا کہیں جسے
میرے وداع ہوش کو اتنا بھی ہے بہت
یہ آب و رنگ حسن کا پردا کہیں جسے
اکثر رہا ہے حسن حقیقت بھی سامنے
اک مستقل سراب تمنا کہیں جسے
اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
شکل صفات معنی اشیا کہیں جسے
ہر موج کی وہ شان ہے جام شراب میں
برق فضائے وادئ سینا کہیں جسے
زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
جان بہار نکہت رسوا کہیں جسے
اس ہول دل سے گرم رو عرصۂ وجود
میرا ہی کچھ غبار ہے دنیا کہیں جسے
سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے
شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
وہ ربط خاص رنجش بے جا کہیں جسے
میری نگاہ شوق پہ اب تک ہے منعکس
حسن خیال شاہد زیبا کہیں جسے
دل جلوہ گاہ حسن بنا فیض عشق سے
وہ داغ ہے کہ شاہد رعنا کہیں جسے
اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
راز حیات ساغر و مینا کہیں جسے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |