جان یا دل نذر کرنا چاہئے
جان یا دل نذر کرنا چاہئے
کچھ نہ کچھ اس بت کو پوجا چاہئے
دل شگافی چاہئے مثل قلم
زخم سینے کا نہ سینا چاہئے
کاٹ کر سر پار بیڑا کیجیئے
تیغ کے گھاٹوں اتارا چاہئے
میں فدا ہوں گر تمہیں باور نہ ہو
آزما دیکھو اسے کیا چاہئے
کشتیٔ مے کا لب جو دور ہو
کھیلنا مستوں نواڑا چاہئے
مست سر جوش شہادت کیجیئے
مثل مے تلوار کھینچا چاہئے
وصل میں بیکار ہے منہ پر نقاب
شرم کا آنکھوں پہ پردا چاہئے
کوئی ہو پامال مثل نقش پا
اپنے سر پر خاک اڑانا چاہئے
وہ جو سمجھئے نہ سمجھے جی میں ہے
اپنے ہی پر دل سے سمجھا چاہئے
سب برے اغیار ہوں کچھ غم نہیں
وہ حسیں بالذات اچھا چاہئے
آنکھ کا پردہ اگر منظور ہے
چلمنیں مژگاں کی چھوڑا چاہئے
کیا طلسم حسن و عشق اے شادؔ ہے
یہ کسی کامل سے پوچھا چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |