جاگا وہاں نصیب عدو کا تمام رات
جاگا وہاں نصیب عدو کا تمام رات
میں بے قراریوں سے نہ سویا تمام رات
میری گلی سے اس کو لگا لے گیا رقیب
میں دیکھتا ہی رہ گیا رستہ تمام رات
تھا بزم غیر میں جو وہاں شغل دور جام
درد جگر کا تھا یہاں دورا تمام رات
مدت ہوئی کہ خواب سے واقف نہیں ہے آنکھ
رہتا ہے زلف یار کا سودا تمام رات
پایا نہ تیرگیٔ شب ہجر میں پتا
مجھ کو اجل نے خوب ہی ڈھونڈا تمام رات
دم بھر بھی میرے دل نے نہ سونے دیا اسے
رویا کیا یہ ہجر کا دھڑکا تمام رات
سوہان روح تھا شب وعدہ میں انتظار
لیکن وہ حیلہ جو نہیں آیا تمام رات
یہ حسن یار نے کیا حیراں شب وصال
تکتا ہی رہ گیا رخ زیبا تمام رات
میرا خیال ہجر کی شب وصل بن گیا
پیش نگاہ یار کو رکھا تمام رات
اکبرؔ شب فراق میں جاگے مرے نصیب
میں نے اسی کو خواب میں دیکھا تمام رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |