جاگیر اگر بہت نہ ملی ہم کوں غم نہیں
جاگیر اگر بہت نہ ملی ہم کوں غم نہیں
حاصل ہمارے ملک قناعت کا کم نہیں
اس ساتھ مہ رخاں کو نہیں کچھ برابری
یوسف سے یہ نگار پری زاد کم نہیں
خوش صورتاں سے کیا کروں میں آشنائی اب
مجھ کو تو ان دنوں میں میسر درم نہیں
دل باندھتے نہیں ہیں ہمارے ملاپ پر
مہ طلعتاں میں مجھ کو تو اب کچھ بھرم نہیں
ملتے ہو سب کے جا کے گھر اور ہم سوں ہو کنار
کچھ ہم تو ان چکوروں سے اے ماہ کم نہیں
ظاہر کے دوست آتے نہیں کام وقت پر
تلوار کاٹ کیا کرے جس کو جو دم نہیں
فائزؔ کو بھایا مصرع یکرنگؔ اے سجن
گر تم ملو گے ان ستی دیکھو گے ہم نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |