جا بیٹھتے ہو غیروں میں غیرت نہیں آتی
جا بیٹھتے ہو غیروں میں غیرت نہیں آتی
اس وقت مری جان مروت نہیں آتی
نزدیک بھی جا کر نہ ملا پردہ نشیں سے
جا دور ہو اے دل تجھے چاہت نہیں آتی
اک ہم ہیں کہ ہیں نام مبارک پہ تصدق
تم کو تو کبھی دیکھ کے الفت نہیں آتی
یا رنج ہے یا ہجر ہے یا حزن ہے یا غم
کچھ شکل بنا کر تو مصیبت نہیں آتی
کیا راہ روی یار کی سیکھے ہے تو اس سال
اس طرح گئی جسم سے طاقت نہیں آتی
ہر شے کے لئے ظرف ہے درکار جہاں میں
کم ظرف کے نزدیک تو ثروت نہیں آتی
کلکتے نے نابود کیا خواب خوشی کو
پل بھر مجھے اس شہر میں راحت نہیں آتی
رہتا ہوں خیال رخ زیبا میں شب و روز
اے جان تصور میں وہ صورت نہیں آتی
کھلتے ہیں گل شعر ہر اک روز مہ و سال
اخترؔ مرے گلزار پہ آفت نہیں آتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |